خاص سوال مندرجہ ذیل سوالوں کا مطلب ڈھونڈنے سے سروکار رکھتے ہیں:
1۔ ہمارا وجود کیوں ہے؟
2۔ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
3۔ خوشی کیا ہے اور میں اِسے کیسے ڈھونڈ سکتا ہوں؟
4۔ اِنسان کا کیا معیار ہے؟
5۔ میں کیسے جان سکتا ہوں کہ جو مجھے جواب ملیں ہیں وہ سچ ہیں؟
ہم اِنسانوں کے مذہبوں اور فلسفوں کو اُن کے نتائج کے مطابق اُن کی کامیابی کی شرح کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہمارا دُنیاوی نظریہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم کسی حادثے کی وجہ سے وجود میں آئیں ہیں، کہ میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے، کہ ہمارے لئے کوئی سچی خوشی نہیں ہے، یا اِنسانوں کا اپنے آپ میں کوئی معیار نہیں ہے، تو یہ دُنیاوی نظریہ غیر مطمئن ہے۔ ہم صرف یہی جان سکتے ہیں کہ یہ سچ تھا، اگر ہم اُس کے متبادل کو ڈھونڈنے کے لئے تمام چیزوں کو ختم کر دیتے ہیں جنہیں ہم ڈھونڈ رہے تھے تو یہ سہی ہو گا۔
اگر اِنسانوں کا وجود بُرائی کرنے کے لئے ہے، اگر میرا مقصد گناہ کرنا ہے، اگر سچی خوشی بُرائی کرنے میں ہے، اگر میرا معیار صرف ایک کام کرنے والی مشین کے طور پر ہے، اور میں جانتا ہوں کہ یہ سچ ہے کیونکہ میں صرف وہ کام کرتا ہوں جو مجھ سے اختلاف رکھتا ہے، تو شاید ہمیں خود یہ مان لینا چاہیے کہ یہ دُنیاوی نظریہ تخلیق کی خوبصورتی یا ایک ماں کے لئے اُس کے بچے کی محبت کے نظریے کے برعکس ہے، یا یہاں تک کہ یہ اِس مقدس خیال کے بھی برعکس ہے کہ خُدا نے ہمیں بنایا، جس کے بارے میں وہ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ شاید وہ کوئی خُدا نہیں ہے بلکہ صرف ایک تصور ہے۔
لیکن اگر اُن خاص سوالوں کے جواب یہ ہوتے کہ:
1۔ ہمارا وجود اِس لئے ہے کہ ہم خُدا سے اور ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔
2۔ میرا مقصد خُدا سے، اپنے آپ سے اور سب سے محبت کرنا ہے، جن کو میں جانتا ہوں یا جن کے ساتھ میرا باہمی تعلق ہے۔
3۔ اِس خوشی میں برکت اور مسرت ہے۔ جو ہمیں خُدا باپ کی طرف سے ایک تحفہ کی شکل میں ملتی ہے، ویسے ہی جیسے میں ایک باپ ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو تحفے دیتا ہوں اور اُنہیں خوشی بھی دیتا ہوں۔
4۔ یہی معیار اِنسانوں کا ہے چاہے وہ کوئی بھی اِنسان ہو، چاہے وہ جوان ہو یا بوڑھا، چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا، چاہے وہ کالا، بھورا، گورا، پتلا، دھیما، تیز یا آہستہ، ہنر مندہ ہو یا نہ ہو، وہ سب بے حد اور لامحدود طور پر اپنا معیار رکھتے ہیں۔
5۔ اور کہ ہم یہ سب جان سکتے ہیں کیونکہ تاریخ میں ہمارے خالق خُدا نے ظاہری شکل میں ہم پر یہ نازل کیا ہے، جس میں وہ زمین پر آیا اور اپنی زندگی سے سچ کو ثابت کیا۔
تو یہ دُنیاوی نظریہ بھی یقیناً خوشخبری ہو سکتا ہے۔ یہ انجیل کے نام سے اہمیت رکھ سکتا ہے۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہے۔