انجیل مقّدس میں جو بو گے وہی کاٹو گے کا اصول ہر جگہ ملتا ہے. کیونکہ اس کا انسانیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے. یہ اصول آدم حوا کے زمانے سے چلتا آ رہا ہے. یہ انسانیت کا بہت بڑا اصول ہے کہ ہم جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے. دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ جیسا کریں گے ویسا بھریں گے. اچھائی کا بدلہ اچھائی اور برائی کا بدلہ برائی:
کرنتھیوں2 – 9 باب 6 آیت: ” لیکن بات یہ ہے کہ جو تھوڑا بوتا ہے وہ تھوڑا کاٹے گا اور جو بہت بوتا ہے وہ بہت کاٹے گا "۔
گلتیوں 6 باب 7 آیت: ” فریب نہ کھاؤ. خدا ٹھٹھوں میں نہیں اڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا "۔
یہ بات ہر طرح سے سچ اور واجب ہے کہ انسان جیسا کرتا ہے ویسا ہی اس کے ساتھ ہوتا ہے. اسی طرح انسان جیسا بیج بوتا ہے ویسی ہی فصل پاتا ہے۔
پرانے عہد نامہ میں بھی انسان کو اس اصول کے بارے میں بتایا گیا ہے:
امثال 22 باب 8 آیت: ” جو بدی بوتا ہے مصیبت کاٹیگا اور اسکے قہر کی لاٹھی ٹوٹ جائیگی "۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ سب ہمارے ساتھ اچھائی کریں، ہم سے پیار کریں، کوئی ہمیں دکھ نہ دے تو ہمارے خدا نے ہمیں بتا دیا ہے کہ جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرو. یہ انسانیت کا بہت بڑا اصول زندگی ہے۔
ایوب 4 باب 8 آیت: ” میرے دیکھنے میں تو جو گناہ کو جوتتے اور دکھ بوتے ہیں وہی اسکو کاٹتے ہیں "۔