ہم مسیحی ہیں، یسوع المسیح کے پیروکار، ایک خدا کے ماننے والے اور ایک کلام مُقّدس پر ایمان رکھنے والے. جب خدا ایک، یسوع مسیح ایک، کتاب مُقّدس ایک تو کیوں بانٹ دیا ہم نے مسیحیت کو فرقوں میں؟ اپنی یک جہتی کو ہم نے خود ہی حصوں میں بکھیر دیا. کہاں لکھا ہے پاک کلام میں کیتھولک، پروٹسٹنٹ، پنتیکوسٹل ہو کر مسیح اور کلام کو فرقوں میں بانٹ دو؟ ہر کوئی اپنا نظریہ دینے لگتا ہے. لوگوں نے پاک کلام کو سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے پر تنقید شروع کر کے اپنے اپنے مشن بنا لئے۔ کیا یہ مسیحیت کے نکتہ نظر سے جائز ہے؟ اور آج ہم اپنی انہیں کوتاہیوں کی وجہ سے غیر قوموں کے شک و شبہات کو ٹھیک طرح سے مٹا نہیں پاتے ہیں۔
ہم نے اپنے آپ کو فرقوں میں بانٹ کر ان کو مضبوط اور اپنے آپ کو کمزور بنایا ہے. ایک مسیحی ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم یکجا ہو کر غیر قوموں کے سوالات کے جواب دینے والے بنیں اور ان کے سامنے ایک عظیم مثال پیش کریں. ہمیں اپنے یسوع المسیح اور پاک کلام کے بارے میں اتنا واضح علم ہونا چاہیے کہ غیر قوم کا کوئی بھی سوال ایک تیر کی مانند نہ ہو بلکہ ہم ان کے شک و شبہات کو پاک کلام کی رو سے جواب دیں. جب ہم یکجا ہوں گے تو غیر قوموں کے تیروں جیسے سوالات کا سامنا ہمارے لیے کبھی مشکل نہ ہو گا. کہا جاتا ہے کہ اتفاق میں برکت ہے. جہاں اتفاق نہیں ہوتا وہاں شیطان سب کو اپنے طریقے سے ورغلاتا ہے. کس طرح ہم نے خود ہی اپنے مذہب کو ان فرقوں میں تقسیم کر کے اپنے لیے الجھنیں پیدا کر لی ہیں. انہیں وجوہات کی بدولت ہم غیر قوموں کے آگے شرمندہ ہوتے ہیں اور ایک غلط مثال پیش کرتے ہیں۔
اگر ہم مسیحیت میں یکجا کردار ادا کر کے کلام مُقّدس پر غور کریں، ایک دوسرے سے فرقوں کو لے کر بحث کرنے کی بجاۓ خدا کے کلام کو غیر قوموں تک پہنچائیں تو ہم کبھی کسی کے آگے شرمندہ نہ ہونگے اور دنیا کے سامنے ایک مضبوط مسیحی قوم کے طور پر ابھر کے سامنے آئیںگے. آمین!
رابیہ مسیح
کراچی، پاکستان