قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان میں مسیحی قوم کا حال
ہر طرف درد ہی درد ہے۔ جہاں دیکھتا ہوں خون اور لاشیں نظر آتی ہیں۔ چیخ و پُکار کا یہ عالم، سِسکیوں سے گھِرا ہوأ یہ ماحول، روتے ہوئے بچے اور مجبور و بے سہارا والدین، ایسا ہے میری مسیحی برادری کا حال۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں کہنے کو تو ملک کا آئین ہر شہری کو برابری کا درجہ دیتا ہے لیکن حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ قائدِ اعظم کا بنایا ہوأ پاکستان اور علامہ اقبال کا خواب پاکستان صرف انتہا پسند مسلمانوں کا ملک بن کر رہ گیا ہے۔
مسیحیوں کو ایک نیچ طبقے کی اقلیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہے۔ نہ مسیحیوں کو تعلیم میں آگے آنے دیا جاتا ہے، نہ اُن کو سرکاری اداروں میں اُن کی قابلیت کے مطابق اُن کو موقع دیا جاتا ہے اور نہ ہی اُنہیں ملک کی سیاست کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ مسیحی برادری ایک دبی، سحمی اور ڈری ہوئی قوم بن کر رہ چُکی ہے۔ جن پر جب چاہے انتہا پسند مسلمان توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر اُن پر تشدد کرتے ہیں۔ جس میں وہ پورے کا پورا محلہ بھی جلا دیتے ہیں اور جھوٹے گواہ پیش کر کے بے گُناہوں کو سزائے موت بھی دلوا دیتے ہیں۔ مسیحی عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے، اُنہیں اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اُنہیں زبردستی مسلمان بنا کر اُن سے شادیاں کی جاتی ہیں۔ ایک طرف اِنسان مریخ پر جا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستانی مسیحیوں کو آج بھی غلام بنایا جاتا ہے۔
کیا کوئی بھی یہ ظلم نہیں دیکھتا ہے؟ کیا پاکستانی مسیحیوں کا درد کسی کو محسوس نہیں ہوتا؟ نہ اقوامِ متحدا کو، نہ بین الاقوامی میڈیا کو اور نہ مغربی حکومتوں کو اِس بات کا احساس ہے۔ کیا گھُٹ گھُٹ کر مرنا، ظلت اور توہین آمیز زندگی جینا جس میں اپنوں کی تباہی دیکھنا، یہی پاکستانی مسیحیوں کی قسمت میں لکھا ہے؟ آخر کب تک برداشت کریں۔ کوئی بھی نہیں ہے جو ہماری آواز اُٹھائے۔ کوئی تو ہمارے حقوق کے لئے لڑے! کوئی تو ہمیں عزت سے رہنے کا حق دلائے اور کوئی تو ہمیں آزاد قوم بننے میں مدد کرے۔ خُداوند آپ سب کو برکت دے۔ آمین!