مسیحی زندگی کا مقصد دنیاوی تعلقات قائم کرنا نہیں بلکہ انجیل کی منادی کرنا ہونا چاہیے۔
اپنے مِشن ٹرپس کے دوران میرا دو دفعہ ملیشیاء جانے کا اِتفاق ہُوا۔ اِن دَورَوں کے دوران میں کُچھ مُقامی، پاکستانی اور مغربی (خصوصی طور پر امریکی) خُدام سے مِلا جو اِس بات کے دعویدار تھے کہ وہ ملیشیاء میں مِشن کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ جان کر مُجھے بہت خُوشی ہُوئی کہ آخر کُچھ لوگ تو ایسے ہیں جو خُدا کی بادشاہی کی وُسعت کے لئے حقیقی طور پر کام کرنے کی غرض سے اپنے گھروں اور ممالک کو چھوڑ کر آئے ہیں۔ بلکہ جن مُقامی مسیحیوں سے میری مُلاقات ہُوئی اُنکا بھی یہی کہنا تھا کہ وہ مُسلمانوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہ جان کر میرا تجسس بڑا اور میں نے مزید جاننے کی غرض سے اِن بھائیوں کے طریقہِ واردات اور اُس نجات کے پیغام کو جس کی مُنادی یہ غیر اقوام میں کرتے ہیں کہ متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشِش کی۔ جب میں ساری معلومات حاصل کر چُکا تو اپنی سوچ پر بہت افسوس ہُوا کیونکہ میں اب تک جو سوچ رہا تھا وہ سراسر غلط تھا۔ یعنی یہ کہ مذکورہ گروپس ملیشیاء میں کام تو کر رہے ہیں لیکن وہ ترجیح مسیح کے لیے لوگوں کو جیتنے کی بجائے کسی اور چیز کو دیتے ہیں۔
مغربی مِشنریز عِراق، سیریا، میانمار، افغانستان اور پاکستان سے آئے ہُوئے مُسلمانوں سے روابت قائم کرتے ہیں۔ اُنکی دعوتوں کا اکثر اہتمام کرتے ہیں، اُنہیں روٹی کپڑا اور مکان جیسی سہولیات مہیا کرتے ہیں اور ایک اچھا نمونہ دینے کی کوشِش کرتے ہیں۔
مُقامی مسیحی بھی اِسی طرز کو اپناتے ہُوئے چائنیز اور مغربی مشنریز کی مدد سے کافی مُسلمان مہاجرین / پناہ گزینوں کی مدد کرتے ہیں۔
پاکستانی مسیحی بھی بِنا کُچھ سوچے سمجھے مغربی اور چائنیز خُدام کی مالی معاونت کی بدولت اسی طرز عمل کی پیروی کرتے ہیں۔
اِن تینوں گروپس میں کامن بات یہ ہے کہ یہ مُسلمانوں کی ضروریات کو پُورا کرتے ہُوئے اچھے اور دوستانہ تعلقات تو قائم کر لیتے ہیں۔ لیکن بعد میں انجیل سُنانے اور اُن کو اِس حقیقت سے مُتعارف کروانے سے ڈرتے رہتے ہیں کہ جِس راہ (یعنی اِسلام) پر وہ گامزن ہیں وہ اُنہیں ہلاکت کی طرف لے جائیگی۔ لہٰذا، اُنہیں راہِ ہلاکت کو چھوڑ کر راہِ نجات یعنی مسیح یسُوع پر اِیمان لانے اور اُسکی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ کئی مواقعِ ایسے بھی ہوتے ہیں جب اِن نام نہاد مشنریز کے مُسلمان دوست بِنا شرمائے ان سے مذہبی سوالات پُوچھنے میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتتے اور نہ ہی کوئی لحاض کرتے ہیں۔ لیکن جوابی کاروائی کے دوران بھی نہ صِرف یہ مشنریز اُن کے سوالات کو سراسر نظرانداز کرتے بلکہ یہ دوست کھونے کے خوف کی وجہ سے اچھی اور پیاری باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں اور انکے اس رویے سے مُسلمان دوستوں کو اِس بات کی یقین دہانی ہو جاتی ہے کہ وہ ’’ درُست ‘‘ راہ پر گامزن ہیں۔
اکثر ایسے بھائیوں سے جب میں نے یہ پُوچھا کہ ابھی تک خُدا نے اُن کی وساطت سے کتنے مُسلمانوں کی زندگیاں تبدیل کی ہیں یا کتنے مُسلمانوں نے مسیح یسُوع کو نجات دہندہ قبول کیا تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ’’ دیکھئے ہمارا کام اُن سے مُحبت کرنا ہے اور خُدا کا کام اُنکو تبدیل کرنا۔ ہم اپنا کام کر رہے ہیں ‘‘۔ کُچھ امریکی لوگوں کو تو یہاں پر مُسلمانوں میں ’’ مُحبت بانٹتے ‘‘ ہُوئے تقریباً دس سال یا اُس سے زیادہ کا وقت ہو چُکا ہے لیکن اب تک کوئی ایسا شخص دیکھنے کو نہیں ملتا جِس کی زِندگی اُنکے ’’ مُحبت ‘‘ کرنے کی وجہ سے تبدیل ہُوئی ہو۔ یہی ’’ مشنریز ‘‘ عجیب و غریب قِسم کی رپورٹس بنا کر اپنے ممالک کے لوگوں کو بھیجتے ہیں اور وہاں سے اچھے خاصے پیسے فنڈز کی صُورت میں منگواتے ہیں۔ اَب یہ ایک الگ بحث ہے کہ وہ ان فنڈز کو اِستعمال کس طرح کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جِس کام (یعنی اِنجیل کی مُنادی) کیلئے یہ فنڈز منگوائے جاتے ہیں اُس کام کیلئے انہیں خرچ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ان فنڈز کو تو ذاتی تعلقات قائم کرنے کیلئے ضائع کیا جاتا ہے۔ چند لوگ ایسے بھی ہیں جن سے گفتگو کے دوران اُنہوں نے میری رائے طلب کی تو میں نے اپنی ناقص رائے پیش کرتے ہُوئے یہ کہا کہ اگر ہم مُسلمانوں سے مُحبت کرنے کے دعویدار ہیں تو ہمیں اپنی محبت کا اِظہار اُنہیں یہ بتا کر کرنا چاہیے کہ جِس دین کی پیروی وہ کر رہے ہیں وہ اُنہیں نجات یا ہمیشہ کی زِندگی ہر گِز نہیں دِلا سکتا۔ خُداوند یسُوع مسیح وہ واحِد نجات دہندہ ہے جِس نے یہ دعویٰ کیا کہ جو کوئی اُس کو قبول کرتا ہے اُس پر سزا کا حُکم نہیں ہوتا اور اِس حقیقت سے دُوسروں کو روشناس کروانا ایک مسیحی اور خصوصی طور سے مشنریز پر فرض ہے۔
جب ہم نجات کے پیغام کے بیج درُست طور سے اور پُوری دیانتداری کیساتھ بوتے ہیں تو فصل ضرور کاٹتے ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ زِندگیاں تبدیل کرنے والا خُدا ہی ہے۔ لیکن اُسی خُدا نے ہمیں اِس بات کا حُکم بھی دیا ہے کہ ہم درُست اور اچھے طریقے سے نجات کا پیغام دُوسرے لوگوں تک پہنچائیں۔ اگر ہم دوست کھونے کے خوف کی وجہ سے ٹھیک طور سے کام ہی نہیں کر رہے بلکہ ہمارا رویہ اُنکو اِس بات کی غلط یقین دہانی کروا رہا ہے کہ وہ سچائی کی پیروی کر رہے ہیں تو ایسی صُورتِ حال میں ہم کِس طرح توقع کر سکتے ہیں کہ ہمارے ایسے رویہ کی وساطت سے اُنکی زندگیاں تبدیل ہونگیں؟
کُچھ لوگوں نے تو اِس بات سے اِتفاق کرتے ہُوئے میرا شکریہ ادا کیا لیکن کُچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ’’ ہم مُسلمانوں سے ایسی باتیں کرینگے تو اُنکے جذبات مجروح ہونگے اور ایسا کرنے سے ہم اُنہیں کھو سکتے ہیں‘‘۔ دُوسرے لفظوں میں ان ’’مشنریز‘‘ کیلئے لوگوں کو مسیح کی بادشاہی کے لئے جیتنے سے زیادہ اُنسے تعلقات قائم کرنا ضروری ہے۔ جوکہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔