زندگی پانا ایک خوبصورت احساس ہے. یہ خدا کا دیا ایک حسِین تحفہ ہے لیکن یہ احساس ایک ڈرونا خواب بن جاتا ہے جب ہم مسیحی بن کر کسی اسلامی ملک میں پیدا ہوتے ہیں. یہ احساس کبھی نہ ختم ہونے والی سزا بن جاتا ہے جب آپکو اسلامی ملک میں گُھٹ گُھٹ کر سانس لینے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے. یہ احساس کبھی نہ ختم ہونے والا زخم بن جاتا ہے جب ہر پل آپکو بےعزت کِیا جاتا ہے، تعصب کا شکار بنایا جاتا ہے اور زندہ جلا دیے جانے کے ڈر سے آپ تل تل کر مرتے ہیں۔
کبھی اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ کیوں یسوع کے پیروکاروں کو اِس طرح ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے؟ کیوں ہم سے اور خدا کے نام سے اتنی نفرت کی جاتی ہے؟ پھر ایک کہاوت یاد آتی ہے. جھوٹ ہمیشہ سچ کو دبانے کی، خاموش کرنے کی اور اُسے کچلنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے. یہ کہاوت مجھے سمجھاتی ہے کہ ہماری مسیحیت کا سچ اُنکے جھوٹ کو اُنکے دلوں میں اندر ہی اندر احساس کمتری کا شکار بناتا ہے۔
اُنکو کسی نہ کسی دن اپنے جھوٹ کے پردہ فاش ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے جھوٹ کو تا عمر زندہ رکھنے کے لیے وہ ہمارے سچ کو ڈراتے ہیں، دھمکاتے ہیں اور اُسے معزور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں. لیکن ہمارے خدا یسوع المسیح کی محبت اتنی مضبوط اور شدت سے بھرپور ہے کہ کوئی بھی ظُلم، توہین، حکارت بھری نظریں، تشدد اور یہاں تک کہ موت بھی ہمارے سچ کے قدموں کو للکھڑا نہیں سکتی۔
ہاں یہ سچ ہے کہ تکلیف سے درد ہوتی ہے، درد سے چیخ نکلتی ہے اور شیطان ہمیں وارگلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم اپنے پیارے خدا یسوع المسیح کی محبت کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار رہیں گے. کیونکہ اِن قربانیوں کا اَجر ہمیں اپنے خدا سے ابدی زندگی میں ملے گا۔
ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم مسیحی تھے، ہیں اور رہینگے. ہلیلویا!