بہت سے لوگ جنہیں سائنس اور اُس کی وجوہات پر اعتماد ہے وہ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ‘وہ جو بائبل پر ایمان رکھتے ہیں وہ جادو پر ایمان رکھتے ہیں، کہ اُن کے پاس دُنیاوی نظریے کے لحاظ سے خود سے بنایا ہوا ایمان ہے جو اُس حقیقت، سچ اور سمجھ کے عزم سے خالی ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اِسے خود سے بنائی ہوئی کہانیوں کے ساتھ تبدیل کیا ہے جو عقلی خیالات کو ظاہر کرتی ہیں۔
بُرا محسوس کرتے ہوئے میرے ناظرین مجھ سے یہ وضاحت مانگتے ہیں کہ میں کیوں اِتنے غصے والے بیان دیتا ہوں۔
بائبل میں نقطہ آغاز سے سب کچھ لکھا ہے۔ پیدایش کی کتاب سے، ” خُدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔۔۔” جس میں خُدا کی مصروفیت کے بارے میں آغا کیا گیا اور جس میں سچ کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ جیسے کہ ایک سائنسی کاغذ کا مقصد سائنسی تجربوں کے نتائج اور عاقبت کا پیغام دینا ہوتا ہے، ویسے ہی بائبل بھی گزرے ہوئے تجربوں کے بارے میں بتاتی ہے۔ مثال کے طور پر، یوحنّا رسول مسیح کے بارے میں بتاتے ہیں، اِس پیغام کا موضوع یوحنّا کی انجیل میں ملتا ہے:
یوحنا 1 باب 14 آیت: ” اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال”۔
دس احکام میں یہ کہا گیا ہے کہ، ” تم جھوٹے گواہ مت لاؤ ” ( خروج 20 )، اور سینٹ پال کا پہلا خط جس میں وہ ایک چرچ کو لکھتے ہیں، ” سب باتوں کو آزماؤ۔ جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہو”۔
اِس میں سے کوئی بھی پیغام خود سے بنایا ہوا نہیں ہے، بلکہ یہ سچ کے حوالے سے مقدس معاہدہ ہے، جو سب سچ ہے۔ بائبل کے اِن مصنفین نے اُن واقعات کو دیکھا اور محسوس کیا جو عام نہیں تھے، وہ واقعات جنہوں نے اُن کے تجربوں کے سانچے کو توڑ دیا، اور اُن کی زندگی کو بدل دیا۔ یہ سب نقطہ آغاز تھا اور اُنہوں نے اِسے درست طریقے سے تحریری شکل دے دی۔
اِنسان پرستی ہمیں صرف یہ بتاتی ہے کہ کائنات میں کیا موجود ہے اور جو صرف ہماری سائنسی سوچ میں آتا ہے اور کہ خُدا کے بارے میں بات کرنا صرف پریوں کی کہانیاں بیان کرنے جیسا ہے۔ کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو کوانٹم طول و عرض کے پسِ منظر کے ساتھ فزکس کے قانون کے موضوع پر کیوں بحث کی جاتی ہے، جنہوں نے کائنات کے وجود کے بارے میں بتایا تھا؟
اِس کے لئے اِنسان پرستی کے نقطہ نظریہ کو منطقی ہونا چاہیے، اِنسان پرستی کو ماننے والے لوگوں کو پہلے اِس بات کو ثابت کرنا ہوگا کہ جو واقعے بائبل میں بیان کئے گئے ہیں وہ اِس سے پہلے نہیں ہوئے تھے۔ صدیوں کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ یہ سب کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اُنہیں یہ بھی ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ کیسے بائبل قدرتی اور عام باتیں بتاتی ہے جس میں یہودی، مسیحی، اُن کے پاک کلام، اور اُن کا ایمان شامل ہے۔ یہی سب کچھ یقیناً طور پر وہ نہیں بیان کر سکتے۔ میں وہ جانتا ہوں، کیونکہ میں نے بھی اُسے ثابت کرنے کی بہت کوشش کی تھی اور میں ناکام رہا۔ یہی اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے میں مسیح پر ایمان رکھتا ہوں۔
بائبل خود اپنے پیغام کو سچ ثابت کرتی ہے۔ اور یہ مکمل طور پر آزمایا جا چکا ہے۔ بنیادی اصول کے طور پر بائبل کے پیغام اور خیالات کو جانچتے ہوئے، تمام اِنسان پرستی پر عمل کرنے والے لوگوں نے اپنے ہی تجربات سے نقطہ آغاز کو ہٹا دیا ہے، تو وہ اُن سائنسدانوں کی طرح ہیں جو اپنے ہی بے معنی دعوؤں کو آزمانے سے اِنکار کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے دعوے جھوٹے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں وہ صرف اپنے تصورات ظاہر کر رہے ہیں۔ ویسے ہی جیسے سائنس نئے چیلنجوں کو آزماتی ہے کہ کوئی نئے نظریات قائم کرے۔ اِس سے بچنے کے لئے اُنہیں یقیناً طور پر خود سے بنائے ہوئے یقین کے بارے میں غیر منطقی، غیر جانبدار اور بے نقاب ہونا ہوگا۔
تو سینٹ پال نے سہی کہا ہے کہ: ” سب باتوں کو آزماؤ۔ جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہو”۔ یہ سائنس کا اصول ہے۔
اگر آپ کو اپنے ایمان پر جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو آپ اِس کی سچائی پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ اگر آپ یہ نہیں کرسکتے تو یہ وقت ہے کہ آپ اپنی بہادری دکھائیں اور اُسے بدلیں جس پر آپ ایمان رکھتے ہیں۔ کسی چیز کو آزمائے بغیر اُس پر ایمان نہیں رکھنا چاہیے۔ بلکہ آپ کو اُن چیزوں پر ایمان رکھنا چاہیے جنہیں آپ آزما چکے ہیں۔ خُداوند آپ کو برکت دے۔