پوپ فرانسس، جو فوربس کی فہرست میں 5 نمبر پر آتے ہیں جس فہرست میں بہت سے طاقتور لوگ شامل ہیں۔ جن کے پاس صرف اِتنی ہی طاقت ہے کہ وہ ظلم کا شکار ہونے والے مسیحیوں کے لئے صرف دُعا اور اُن کی مذمت کر سکتے ہیں۔ دُنیا کا سب سے طاقتور مذہبی ملک ہوتے ہوئے بھی ویٹیکن ظلم کا شکار ہونے والے مسیحیوں کے لئے کچھ خاص نہیں کر رہے۔ ایک طاقتور ریاست جس کے تقریباً دُنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ مضبوط سفارتی تعلقات ہیں وہ ظلم کا شکار ہونے والے مسیحیوں کی مذمت کرنے اور اخباروں کے ذریعے صرف پیغام بھیجنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔ عراقی اور سیرین مسیحی تکلیف میں خط لکھ رہے ہیں، مسیحی عورتوں کو بدنام کیا جاتا ہے اور اُن میں سے بہت سی عورتیں شرم کی وجہ سے خود کشی کررہی ہیں، اور ابھی تک ہمارے عظیم رہنما خاموش ہیں۔ خُدا نے ہمیں یہ نہیں سِکھایا کہ ہم اُس کے لوگوں کو تکلیف میں دیکھتے ہوئے خاموش رہیں۔ ہمیں اچھے سامریوں جیسا بننے کی ضرورت ہے اور اِس لئے ہمیں ظلم میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔
ویٹیکن کی عظیم دولت پر حکمرانی کرتے ہوئے، پوپ فرانسس نے کبھی بھی ظلم کا شکار ہونے والے مسیحیوں کے لئے کوئی اصل اور مؤثر مدد فراہم نہیں کی۔ لوگ اُمید کھو رہے ہیں کیونکہ اُن کے رہنما خاموش ہیں جبکہ مسیحی درد میں چلاّ رہے ہیں۔ یورپ ہزاروں مسلمان مہاجروں کو اپنے ملک میں جگہ دے رہا ہے، تو پوپ کیوں نہیں یورپ کی حکومت سے بات کرتے کہ وہ اُن مسیحیوں کو بھی اپنے ملک میں جگہ دیں جو ظلم کا شکار ہو رہے ہیں؟ پوپ فرانسس کا ” اِسلام میں دہشت گردی ” کے بارے میں سفارتی نظریہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُن کو اِسلامی ریاستوں میں ظلم برداشت کرنے والے مسیحیوں کی کتنی کم پرواہ ہے۔ اُن کے اِس بیان نے کہ ” مستند اِسلام اور قرآن کو مکمل پڑھنا ہر قسم کے تشدد کے مخالف ہے” کئی مسیحیوں کو مشتعل کر دیا ہے جو اِسلام کی اصلیت کو بے نقاب کر رہے تھے تاکہ بہت سی روحوں کو بچایا جائے۔ اُنہیں انجیل کے اصل پیغام کی پیروی کرنی چاہیے اور جب وہ شیطان کو دیکھیں تو اُسے دور ہونے کا حکم دینا چاہیے۔
چارلی ایبدو کی موت کے بعد، پوپ نے کہا کہ مذہبوں کی توہین نہیں کرنی چاہیے اور بدلہ لینے کے بارے میں اُنہوں نے یہ کہا کہ، ” اگر کوئی میری ماں کی توہین کرتا ہے تو وہ میری طرف سے بدلے کی اُمید رکھ سکتا ہے”۔ اِس کے ذریعے اُنہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کی اِنتہا پسند یکجہتی کے ساتھ متحد کر لیا ہے۔ پوپ فرانسس کو ایک ارادہ رکھنا چاہیے کہ وہ کس کی طرف ہیں۔
تو دوسرا گال آگے کرنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے اور جس کے بارے میں یسوع سے بھی پوچھا گیا تھا کہ کتنی دفعہ ایک شخص کو معاف کیا جائے؟ اور یہ پوپ تو کسی کو معاف نہیں کریں گے بلکہ بدلہ لیں گا۔ چاہے مسلم جتنا بھی اپنے آپ کو امن کی تبلیغ کرنے والے ظاہر کر لیں، لیکن اُن کی موت کی ثقافت اور اِسلامی فرقے نہیں بدل سکتے۔ وہ اُن سے بدلہ لینے کے لئے تیار ہیں جنہوں نے اُن کی ماں کی بے عزتی کی لیکن دوسرے ہاتھ پر وہ اُن مسیحی عورتوں کے لئے کچھ نہیں کر رہے جن کی آبرو ریزی کی جا رہی ہے اور اُنہیں جنسیت کے لئےغلام بنایا جا رہا ہے۔ ویٹیکن مکمل طور پر سفارتی بن رہے ہیں یا وہ اُن کی طرف سے کھڑے ہونے اور ظلم کا شکار ہونے والے مسیحیوں کی برادری کے لئے لڑنے کو ناپسند کرتے ہیں۔
اِس سے پہلے کہ مسیحی لوگ پوپ اور متحدہ رومن کیتھولک گرجاگھر سے نہ اُمید ہو جائیں اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنے تمام مسیحی بہن اور بھائیوں کی مدد کریں۔ ہزاروں مسیحی درد ناک زندگی گزار رہے ہیں، بے شمار مسیحی اُن ملکوں میں مہاجرین کے طور پر ہیں جو اُنہیں قبول نہیں کرتے اور اُن کے اپنے ملک مسیح کے ساتھ اُن کی محبت کی وجہ سے اُن پر ظلم کرتے ہیں۔ اِس سے پہلے کہ سب کچھ ختم ہو جائے پوپ کو اپنے اختیارات کا استعمال کرنا چاہیے۔ اُنہیں اِسے تسلیم کرنا چاہیے اور اِس بات کا دعویٰ کرنے سے نہیں ڈرنا چاہیے کہ اِنتہا پسند مسلمان مسیحیوں پر ظلم کر رہے ہیں۔
سفارتی دورے اور ملاقاتیں ختم کریں! اور اپنے کام پر واپس آئیں پوپ۔۔۔۔ وہ کریں جو آپ کو کرنا چاہیے۔