پاکستان میں آئے دن گرجا گھروں کو جلایا جا رہا ہے. اب تو یہ ایک معمولی سی بات سمجھی جاتی ہے. اس شرمناک حرکت پر کوئی روک تھام نہیں. پاکستان کی حکومت اور حکمران صرف تب کیوں جاگتے ہیں جب قرآن کا جلا یا پھٹا ہوا صفہ کسی مسلمان کو ملے اور اسکا الزام کسی مسیحی پر زبردستی لگایا جائے؟ تب حکومت، حکمران اور عدلیہ سب اپنے قانونی فیصلے سنانے آجاتے ہیں. پر جب ہمارے گرجا گھر اور ہزاروں کی تعداد میں مسیحی جل کر راکھ ہو جاتے ہیں تب اس خبر کو ہلاقت یا جاں بحق کا نام دے کر کچھ دنوں میں بھلا دیا جاتا ہے۔
کہنے کو تو ہم ان کے اہل ِکتاب ہیں لیکن ہم ان کے اہل ِکتاب صرف تب ہوتے ہیں جب قومی انتخابات کے وقت انہیں اقلیتی بہن بھائیوں کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے. لیکن جب ان کے اقلیتی بہن بھائیوں کے گرجا گھروں کو جلایا جاتا ہے تب ہماری آہیں اور ہماری چیخ و پکار کو سن کر اور دیکھ کر بھی نظرانداز کر دیا جاتا ہے. اور اگر ہم اپنی آواز اٹھائیں تو اسے ڈنڈے اور دھمکی کے زور پر دبا دیا جاتا ہے. بعض اوقات تو ہماری آواز دبانے میں ہماری قومی رہنما (پولیس) بہت اہم کردار ادا کرتی ہے. ایک جھوٹا مقدمہ بنا کر ریمانڈ میں لے کر آواز اٹھانے والے مسیحی کی جان تک لے لیتے ہیں اور کوئی ان سے صفائی مانگنے والا نہیں ہوتا کیونکی جس کی جان گئی وہ کوئی مسلمان نہیں بلکہ مسیحی تھا جس کے خون کی کوئی قیمت نہیں. کیا صرف اس وجہ سے کہ ہم مسیحی کہلائے جاتے ہیں ہمارے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرنا جائز ہے؟
ہمارے گرجا گھروں کو نظرآتش کر کے انہیں ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی. اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا قرآن انہیں یہ سب کرنے کی اجازت دیتا ہے یا ملک کا قانون؟ جواب آپ کو بھی پتا ہے اور مجھے بھی، سمجھدار کو صرف اشارہ ہی کافی ہوتا ہے. اگر ذرا بھی انسانیت یا قانون کی قدر ہوتی تو ہزاروں کی تعداد میں میرے مسیحی بہن بھائی گرجا گھروں کے ساتھ ساتھ نظرآتش نہ ہوتے. ماؤں کی گود سونی نہ ہوتی، ان کی آنکھوں کے تارے ان کے سامنے جل کر راخ نہ ہوتے، بھائی اپنی بہن اور بہنیں اپنے بھائیوں سے جدا نہ ہوتیں، ہر انمول رشتہ جل کر راخ نہ ہو گیا ہوتا. وہ سب مسیح میں سوئے نہیں بلکہ وقت سے پہلے جبراً سلا دیے گئے۔
کیا ملا تمہیں ہر گھر سے دیا بجھا کر؟ کبھی ہو سکے تو محسوس کرنا اس درد کو جو تم آئے دن ہمارے گرجا گھر جلا کر ہمیں دیتے ہو، ہماری ماؤں کی گود اجاڑ کر تا عمر ان کو رونے اور تڑپنے کے لئے مجبور کرتے ہو. شاید تمہارا ضمیر جاگ جائے، تم رُک جاؤ، تھم جاؤ اور انسانیت کے راستے پر واپس آ جاؤ۔
کوئی نہیں جو ہماری آہیں سنے. کیا یہ درد ہماری تقدیر کا حصہ بن گیا ہے. پاکستانی مسیحی ہونے کے سبب سے ہم ہمیشہ جل کر ہلاک ہوئے. شاید ہم نے ایک غلط ملک میں انصاف کی امید رکھی ہے. ہم ان کی نظر میں اقلیت تھے، ہیں اور ہمیشہ رہینگے. یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے ملک پاکستان میں جنم لیا۔
ز. ق.
لاہور – پاکستان